عالمی ثالثی: حقیقت یا دھوکہ؟فلسطینیوں کے لہو کا سودا

مسعود محبوب خان ممبئی
اسلام کا پیغام سراسر عدل، امن اور انسانی حرمت کا علمبردار ہے۔ قرآنِ مجید نے ظلم کو زمین کا سب سے بڑا فساد قرار دیا ہے اور مظلوم کی آہ کو عرشِ الٰہی تک پہنچنے والی صدا بتایا ہے۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اتقوا دعوۃ المظلوم فإنہ لیس بینہا و بین اللّٰہ حجاب”۔ (مظلوم کی بددعا سے بچو، کیونکہ اس کے اور اللّٰہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔)۔ فلسطین، وہ سر زمین ہے جو انبیاء کا مسکن رہی، جہاں مسجدِ اقصیٰ واقع ہے — وہی اقصیٰ جسے قرآن نے "مبارک” قرار دیا اور جہاں سے نبی آخر الزماں صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو معراج کی رات آسمانوں کی سیر کرائی گئی۔ اس زمین پر آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ حق و باطل کی وہ کشمکش ہے جو ازل سے جاری ہے۔
اللّٰہ ربّ العزت نے سورۂ نساء میں فرمایا: "کیا وجہ ہے کہ تم اللّٰہ کی راہ میں اور اُن بےبس مردوں، عورتوں اور بچّوں کی خاطر جہاد نہیں کرتے جو پکار پکار کر کہہ رہے ہیں: اے ہمارے ربّ! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں!” (النساء: 75)۔ یہ آیت محض ماضی کی داستان نہیں، بلکہ آج کے فلسطین کی تصویر کشی ہے۔ ایسے میں خاموشی، غیر جانب داری، یا ظالم کو ثالث مان لینا — درحقیقت حق کا ساتھ نہ دینے کے مترادف ہے۔ اسلام نہ صرف مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کا حکم دیتا ہے، بلکہ ظالم کا ہاتھ روکنے کو بھی ایمان کا تقاضا قرار دیتا ہے۔
اسی قرآنی و نبوی روشنی میں، اب وقت ہے کہ ہم سوال کریں: کیا عالمی ثالثی درحقیقت عالمی عدل کا مظہر ہے؟ یا یہ منافقت کا نقاب ہے؟ کیا فلسطین کے زخموں پر مرہم رکھا جا رہا ہے، یا ان پر نمک چھڑکا جا رہا ہے؟ اسی سوال کے تناظر میں یہ تحریر ایک فکری اور ایمانی جہاد کی حیثیت رکھتی ہے۔
دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا تنازعہ ہو جو اتنے طویل عرصے تک سلگتا رہا ہو، جتنا فلسطین و اسرائیل کا قضیہ۔ یہ صرف ایک زمینی تنازعہ نہیں، یہ انصاف، انسانیت، حق و باطل، خون اور آنسوؤں کی طویل داستان ہے۔ ایک ایسی داستان، جسے وقت نے بارہا دہرایا، اور دنیا نے بارہا نظر انداز کیا۔ اقوامِ متحدہ ہو یا امریکہ، برطانیہ ہو یا یورپی یونین، قطر اور مصر جیسے عرب ممالک ہوں یا ترکی اور اردن جیسے خطے کے اہم کھلاڑی — سبھی نے برسوں سے اس تنازعے کے حل کے لیے ثالثی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ ثالث، کیا واقعی عدل کے ترازو کو تھامے کھڑے ہیں؟ یا یہ ثالثی محض ایک خوبصورت چال ہے، جس کے پردے میں مظلوموں کی آہیں دبا دی جاتی ہیں، اور ظالم کے ہاتھ مزید کھل جاتے ہیں؟
یہ دنیا کا سب سے کھلا راز ہے کہ فلسطینیوں اور صہیونی ریاست کے مابین ہونے والے معاہدے کبھی برابری کی بنیاد پر نہیں ہوتے۔ یہ "معاہدے” دراصل وہ میزیں ہیں جہاں ایک فریق کا وجود صرف دستخط کرنے تک محدود ہوتا ہے، اور دوسرا فریق — اسرائیل — اپنی شرائط لکھواتا ہے، توڑتا ہے، اور پھر نئی شرائط مسلّط کر دیتا ہے۔ ان معاہدوں کے پسِ پردہ جو "ثالث” بیٹھے ہوتے ہیں، وہ اکثر وہی طاقتیں ہوتی ہیں جو اسرائیل کو سیاسی پشت پناہی، عسکری اسلحہ، اور اخلاقی جواز فراہم کرتی آئی ہیں۔ اسرائیل کے وعدہ خلافیوں کی فہرست اتنی طویل ہو چکی ہے کہ اگر اسے ایک دیوار پر لکھا جائے تو وہ دیوارِ گریہ سے بھی بلند ہو جائے۔ ایک ایک معاہدہ، ایک ایک قرارداد، فلسطینیوں کی شکستہ امیدوں کا نوحہ بن چکی ہے۔ ان قراردادوں کی روشنائی خشک ہو چکی ہے، مگر ان کے لفظ آج بھی فلسطینی بچوں کی آنکھوں میں زندہ ہیں — ہر لاش، ہر زخم، ہر چیخ — ان قراردادوں کے کھوکھلے پن کی گواہی ہے۔
اقوامِ متحدہ، جس کا فرض تھا کہ وہ عالمی ضمیر کی آواز بنتی، انصاف کی تلوار کو بےنیام کرتی، اور مظلوموں کا سایہ بنتی، وہ آج اپنی میزوں، فائلوں اور اجلاسوں میں گم ہے۔ وہ صرف الفاظ بولتی ہے، قراردادیں پاس کرتی ہے، اور پھر خاموش ہو جاتی ہے۔ اس کی خاموشی، اس کے ضمیر کی موت کا اعلان ہے۔ اگر اس عالمی ادارے نے کبھی اپنے ضمیر کو جگایا ہوتا، اگر اس نے انصاف کے تقاضے کو اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یاد دلایا ہوتا، تو شاید آج فلسطین کی فضا میں بچّوں کی چیخیں نہ گونجتیں، شاید ماؤں کی گودیں یوں اجاڑ نہ ہوتیں، شاید دنیا کے ضمیر کو بار بار جھنجھوڑنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج ثالثی کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ انصاف کا خون ہے — اور وہ بھی سفید دستاروں میں لپٹا ہوا۔
نقضِ عہد اور خاموش ثالث یا شریکِ جرم
دنیا کہتی ہے کہ وہ مہذب ہے — قوانین کی علمبردار، اخلاقیات کی محافظ، اور انصاف کی پروردہ۔ مگر جب فلسطین کی سر زمین پر بہتا خون دیکھتے ہیں، جب معاہدوں کی روشنائی مٹتی ہے اور وعدے کاغذوں سے اتر کر ملبے تلے دفن ہو جاتے ہیں، تو ہم اس مہذب دنیا کا وہ چہرہ دیکھتے ہیں جو نفاق، مصلحت اور مفاد پرستی سے آلودہ ہے۔
ہر بار ایک نیا معاہدہ ہوتا ہے — قاہرہ، اوسلو، کیمپ ڈیوڈ یا ابراہیمی — اور ہر بار اسرائیل وہ پہلا فریق ہوتا ہے جو اسے روندتا ہے۔ زمینوں پر قبضہ جاری رہتا ہے، بستیوں کی تعمیر تیز تر ہوتی ہے، محاصرہ سخت تر ہوتا ہے، اور زندگی فلسطینیوں کے لیے مزید تنگ ہو جاتی ہے۔ اور ان تمام مراحل میں جو "ثالث” ہوتے ہیں، وہ یا تو مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہیں، یا اسرائیل کی ہر زیادتی کے لیے نئے جواز گھڑتے ہیں، نئی زبان تراشتے ہیں۔ یہ وہ خاموش ثالث ہیں جو صرف تب چیختے ہیں جب مظلوم کے ہاتھ میں پتھر ہوتا ہے، مگر تب خاموش ہو جاتے ہیں جب طاقتور کے ہاتھ میں توپ، میزائل اور بربریت کی کمان ہو۔ ان کے ضمیر کی آنکھ صرف اس وقت کھلتی ہے جب اسرائیل کو خراش آتی ہے، مگر جب فلسطینی معصوموں کے جنازے اٹھتے ہیں، تو ان کی زبانیں شل، ان کے اجلاس بے جان، اور ان کے فیصلے بے اثر ہو جاتے ہیں۔
کیا یہ انصاف ہے؟ کیا ثالثی کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ طاقتور کی مرضی کو "امن” کا نام دے کر مظلوم کی مزاحمت کو "تشدّد” سے تعبیر کیا جائے؟ کیا ثالث کا فرض نہیں کہ وہ فریقین کو معاہدے کی پابندی پر مجبور کرے؟ یا کیا ثالثی صرف اس وقت معتبر ہوتی ہے جب وہ ظلم کو قانونی شکل دے اور عدل کو جرم بنا دے؟ یہ سوال صرف فلسطین کا نہیں، یہ سوال انسانیت کا ہے۔ یہ سوال اس عالمی ضمیر کا ہے جو خود کو انسانیت کا رہنما سمجھتا ہے، مگر ہر بار ظالم کا ہاتھ تھامتا ہے اور مظلوم کو تنہا چھوڑ دیتا ہے۔ معاہدے اگر یکطرفہ طور پر پامال ہوں اور دنیا خاموش رہے، تو وہ معاہدے نہیں، زنجیریں ہیں — جو کمزور کو باندھنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ اور وہ ثالث جو ان زنجیروں کو "امن” کا نام دیتے ہیں، وہ صرف تماشائی نہیں، شریکِ جرم ہیں۔
صلح کے دعوے، جنگی عزائم — مسیحی دنیا کا اصل چہرہ
یہ وہی مغربی دنیا ہے جو ہر بین الاقوامی فورم پر انسانی حقوق کے نعرے بلند کرتی ہے۔ جو آزادئ نسواں کو اپنا مشن کہتی ہے، بچّے کے آنسو کو عالمی ضمیر کی للکار تصور کرتی ہے، اور تحفّظِ صحافت یا صحافی کی گرفتاری پر پارلیمنٹ کے در و دیوار ہلا دیتی ہے۔ یہ وہی دنیا ہے جو مذہبی آزادی کے نام پر دنیا کے طول و عرض میں مداخلتِ کار ہوتی ہے، اور خود کو مسیح علیہ السلام کا پیروکار کہہ کر اخلاقیات کا تاج سر پر رکھتی ہے۔ مگر جب انہی کے نعرے، انہی کے وعدے، انہی کے عقائد فلسطین کی دہلیز پر آ کر دم توڑ دیتے ہیں، تو سچائی اپنی پوری بے نیازی سے منہ چڑاتی ہے۔
جب ایک مسیحی اسپتال کے ملبے تلے شیر خوار لاشیں برآمد ہوتی ہیں، جب حاملہ خواتین کی چیخیں آسمان کا سینہ چیرتی ہیں، جب بچّوں کے اعضا زخموں کی طرح زمین پر بکھر جاتے ہیں، تب صلیب خاموش ہوتی ہے، گرجا گھروں کی گھنٹیاں بجنے کے بجائے بند ہو جاتی ہیں، اور اخلاقیات کی میزوں پر نئے سودے طے پاتے ہیں۔ وہی امریکہ، جو ہر سال اربوں ڈالر کی فوجی امداد اسرائیل کو دیتا ہے — نہ صرف ٹینک، طیارے، اور بم، بلکہ جواز، جملے، اور میڈیا مہمات بھی۔ وہی یورپ، جو فلسطینی مزاحمت کو دہشت گردی کہتا ہے، مگر اسرائیلی جارحیت کو "دفاعِ خودی” کا نام دیتا ہے۔ وہی اقوامِ متحدہ، جو روزانہ شہید ہونے والے بچّوں کی تعداد تو بتاتی ہے، مگر کسی قرارداد میں جراتِ اظہار نہیں رکھتی۔
کیا یہ محض اتفاق ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ ایک منظم، سوچا سمجھا، اور دجالی نظام ہے — جو دنیا کو انصاف کا خواب دکھاتا ہے، مگر بیداری پر ظلم کی حقیقت تھما دیتا ہے۔ یہ صلیب کے پیروکار نہیں، تلوار کے سودا گر ہیں۔ جنہوں نے حضرت عیسیٰ کے پیغامِ محبت کو ترک کرکے سیاست کی صلیب پر صداقت کو مصلوب کر دیا ہے۔ اگر مسیح زندہ ہوتے تو وہ فلسطین کے بچّوں کی لاشوں پر آنسو بہاتے، اور گرجا گھروں میں عدل کی صدا بلند کرتے — مگر آج ان کے نام پر قائم نظام صرف خاموش تماشائی ہے۔ اس مہذب دنیا کی خاموشی ہی سب سے بڑا شور ہے — ایک ایسا شور جو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ضمیر مر چکا ہے، اور انسانیت اب صرف کتابوں میں باقی ہے۔
عصرِ دجل، فتنۂ دجال: آئینۂ فتنہ میں جھلکتی دنیا
زمانہ ایک عجیب موڑ پر آن کھڑا ہوا ہے۔ افق پر وہ سائے لہرا رہے ہیں جن کا تذکرہ صدیوں پہلے نبیِ آخرالزماںﷺ نے اپنی امت کو خبردار کرنے کے لیے فرمایا تھا۔ وہ فتنہ جس کی ہولناکیوں سے انبیاء بھی پناہ مانگتے تھے، کیا اب ہماری دہلیز پر آ کھڑا ہوا ہے؟ آج ہم ایسی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جہاں سچ کو سازش، اور جھوٹ کو شہادت کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ جہاں مظلوم کی آہ کو شر پسندی کہا جاتا ہے، اور ظالم کے بموں کو امن کی علامت۔ جہاں جس کے پاس طاقت ہے، وہی "حق” کہلاتا ہے، اور جس کے پاس صرف حق ہے، وہ صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ اب چراغِ ہدایت نہیں، بلکہ نقابِ فریب بن چکے ہیں۔ قلم وہی لکھتا ہے جو طاقتور چاہتا ہے، اور کیمرہ وہی دکھاتا ہے جو استعمار کی آنکھ پسند کرتی ہے۔ عدل کے ایوان مجرموں کی آماجگاہ بن چکے ہیں، اور حق کی عدالتیں محض دکھاوا۔ اقوام متحدہ سے لے کر انسانی حقوق کے ادارے تک، سب مظلوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے خاموشی کا زہر چھڑک رہے ہیں۔
کیا یہ سب وہ نشانیاں نہیں جن کا نقشہ احادیثِ نبوی میں کھینچا گیا؟ وہ وقت کہ جب دجل اپنی تمام تر چمک دمک کے ساتھ سامنے آئے گا، حق اور باطل کی تمیز مٹ جائے گی، اور فتنے بارش کی بوندوں کی طرح برسیں گے؟ آج ہم اسی منظرنامے کا حصّہ ہیں، اور اس دجالی نظام کے پردے ہر روز ہمارے سامنے اُٹھ رہے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب ہر صاحبِ ایمان کو اپنے اندر جھانک کر سوال کرنا ہوگا: کیا میں سچ کے ساتھ ہوں یا طاقت کے ساتھ؟ کیا میرا ضمیر ابھی زندہ ہے یا کسی عالمی بیانیے کا غلام بن چکا ہے؟ یہ فیصلہ اب فرد کا ہے، قوم کا ہے، امت کا ہے — کیونکہ یہ صرف دورِ فتن نہیں، بلکہ دورِ فیصل ہے۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھ نہ کھولی، تو ہو سکتا ہے کہ وہ دن دور نہ ہو جب حق کے علمبردار گنتی کے چند ہوں، اور دجال کے پیروکار دنیا کی قیادت کر رہے ہوں — وہ قیادت جو انسانوں کو انسانیت سے محروم کر دے۔
فلسطین کا جہاد: بقاء کی جنگ، دہشت گردی نہیں
کبھی کسی نے دھوپ میں پگھلتے ہوئے مٹی کے وہ گھر دیکھے ہیں جن کی دیواروں پر بچوں کے خون کے دھبّے ہوتے ہیں؟ کبھی کسی نے سنا ہے ماں کی وہ چیخ، جب اُس کی گود خالی کر دی جائے؟ جب اذان کی صدا کو بارود کے شور میں دبانے کی کوشش کی جائے، جب مسجدوں کے میناروں سے دھواں اُٹھے، اور بچّوں کے کتبے ملبوں کے نیچے دفن ہوں — تو بتائیے، ایسی سر زمین پر اگر کوئی نوجوان بندوق اٹھا لے تو کیا وہ دہشت گرد ہے؟ یا اپنی ماں، مٹی، مسجد اور مقدّس خوابوں کا محافظ؟
حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت ایک ردّ عمل ہے، ایک زخم کی چیخ ہے، ایک مسلسل دھوکہ دی گئی قوم کی آخری سانسوں میں لپٹی ہوئی صدا ہے۔ حماس ہو یا کوئی اور تنظیم، یہ نہ فتنہ ہیں، نہ شوقِ جنگ کی پیداوار۔ یہ تو ان ماؤں کے بیٹے ہیں جن کے آنگن بارود سے جلا دیے گئے۔ یہ اُن نوجوانوں کے خواب ہیں جنہیں تعلیم، زندگی اور مستقبل سے محروم کر کے صرف موت کی راہ دکھائی گئی۔ ظلم کی کوکھ سے جنم لینے والی یہ مزاحمت، ایک فطری فریاد ہے — وہ فریاد جو انسان کے ضمیر سے نکلتی ہے جب انصاف کے تمام دروازے بند کر دیے جائیں۔
دنیا جسے دہشت گردی کہتی ہے، اگر وہی کسی طاقتور ملک کی طرف سے ہوتا، تو اُسے قومی سلامتی یا دفاعِ وطن کا نام دیا جاتا۔ مگر جب وہی عمل ایک کمزور، محصور قوم کی طرف سے ہوتا ہے، تو اسے دہشت گردی قرار دے کر عالمی ضمیر کو سلا دیا جاتا ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ قاتل ریاست کو سفارتی تحفظ حاصل ہو، اور مقتول قوم کی فریاد کو جرم کہا جائے؟ اگر دنیا واقعی انصاف پر یقین رکھتی، تو سب سے پہلے اُس ظلم کو روکتی جو دہائیوں سے فلسطینی قوم پر مسلط ہے۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ پہلے تلوار کو روکا جائے، پھر ڈھال سے سوال کیا جائے۔
یہ مزاحمت کوئی انتخاب نہیں، ایک مجبوری ہے — وہ مجبوری جو عزّت، عقیدہ اور انسانیت کو بچانے کے لیے اپنائی گئی ہے۔ اور جس دن ظلم کا طوفان تھم جائے گا، اُس دن یہ بندوقیں گل و گلزار میں تبدیل ہو جائیں گی۔ لیکن جب تک ظلم باقی ہے، مزاحمت زندہ رہے گی — کیونکہ یہ نہ دہشت ہے، نہ جرم؛ یہ وہ صداقت ہے جو وقت کے ہر فیرون کے سامنے موسٰیؑ بن کر کھڑی ہوتی ہے۔
اسلام ظلم کے خلاف خاموشی کو گناہ کے برابر سمجھتا ہے، اور مظلوم کے حق میں آواز بلند کرنا ایمان کا تقاضا قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ النساء کی آیت ایک بیداری کا اعلان ہے — کہ اہلِ ایمان کو صرف عبادت کا نہیں، عدل و حق کا علَم بھی بلند کرنا ہے۔ فلسطین کے مظلوم، آج اسی قرآن کے مخاطب ہیں، اور ہم سب پر ان کی حمایت واجب ہے۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ” (صحیح مسلم)۔ "تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے، اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو دل میں برا جانے — اور یہ کمزور ترین ایمان ہے”۔
لہٰذا فلسطینیوں کی حمایت محض ایک سیاسی مؤقف نہیں، بلکہ ایمان کا تقاضا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی حیثیت، وسائل اور صلاحیت کے مطابق مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں، اور ظالم کے خلاف ہر ممکنہ محاذ پر آواز بلند کریں — چاہے وہ قلم کا ہو یا دعا کا، احتجاج کا ہو یا آگہی کا۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مظلوم کی آہ رائیگاں نہیں جاتی۔ اگر ہم نے آج حق کے ساتھ کھڑے ہونے کا حق ادا کیا، تو شاید کل کے مؤرخ ہمیں ان لوگوں میں شمار کرے جو سچ کے علمبردار تھے — ورنہ تاریخ کا قاضی ہمیں بھی خاموش شریکِ جرم لکھ دے گا۔
یہ مضمون کسی جذباتی ردعمل کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس تلخ حقیقت کا اظہار ہے جس پر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔ ہم خاموش رہے تو تاریخ ہمیں بھی مجرم لکھے گی۔ یا اللّٰہ! ظلم کی اس گھڑی میں مظلوموں کے لیے اپنی نصرت نازل فرما، باطل کے خیمے ہلا دے، اور سچ کی آواز کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں حق کے ساتھ کھڑے ہونے، ظالم کے خلاف آواز بلند کرنے، اور مظلومینِ فلسطین کی مدد و نصرت کے لیے عملی قدم اٹھانے کی توفیق عطاء فرمائے۔ (آمین ثمّ آمین یا ربّ العالمین)
Comments are closed.