تحفظ اوقاف اور ہمارا رویہ

شمع فروزاں
فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
بحمد اللہ اس وقت آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ پورے ملک میں ’’وقف بچاؤ دستور بچاؤ تحریک‘‘ چلا رہا ہے، اللہ کا شکر ہے کہ پوری ملت اسلامیہ ہند بورڈ کی آواز پر لبیک کہہ رہی ہے اور مسلمانوں کے اتحاد کا ایسا خوشگوار منظر اس وقت ہمارے سامنے ہے جو بہت عرصہ پر چشم تمنا نے دیکھا ہے، اس سے قلب وروح کو سکون حاصل ہوا ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ ایک بڑے شر سے بڑا خیر وجود میں آرہا ہے، شر ملک کی موجودہ حکومت ہے، جس کے دل پتھر سے زیادہ سخت ہیں اور جس کی زبان آگ کے شعلوں سے بڑھ کر دلوں کو جلانے کا کام کرتی ہے، اور خیر یہ ہے کہ ان کی نفرتوں اور شرارتوں کو دیکھ کر ایک طرف خود مسلمانوں نے مسلکی ، تنظیمی، خاندانی اختلافات کو بھلا کر بنیان مرصوص بننے کی مثال پیش کی ہے، دوسری طرف یہ بات بھی واضح ہوئی ہے کہ براداران وطن کی بڑی تعداد انصاف پسند ہے اور نفرت کی سیاست کو پسند نہیں کرتی ہے۔
لیکن ایک اور پہلو بھی ہے جو خود مسلمانوں کے لئے قابل غور ہے، اور وہ یہ ہے کہ اوقاف کے ساتھ خود ہمارا رویہ کیا ہے؟ کیا خود ہمارا طرز عمل درست ہے اور شریعت کے مطابق ہے، یا ہم خود اوقاف کا غلط استعمال کر رہے ہیں؟ یہ بہت ہی اہم ہے، جب کوئی قوم خود اپنے دین ومذہب کی حفاظت نہیں کرتی تو دوسری قومیں بھی اس کو خاطر میں نہیں لاتیں، اور اللہ تعالیٰ کی مدد اُٹھ جاتی ہے، ہم خود اوقاف پر ناجائز قبضہ کریں، اوقاف کی اَملاک کا شریعت کی مقرر کی ہوئی حدود کے خلاف استعمال کریں، مستحقین کو اوقاف کا فائدہ پہنچانے کے بجائے سماج کے دبنگ اور طاقت ور لوگ اپنے ذاتی مفاد کے لئے اس کا استعمال کریں، مدرسوں، یتیم خانوں ہی کی زمینوں پر نہیں؛ بلکہ ان مرُدوں کے حق پر بھی قبضہ کر لیں جو دنیا سے جا چکے ہیں اور قبرستان میں بھی اپنے گھر بسانے لگیں ، اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگا؟یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور پوری خدا ترسی کے جذبہ کے ساتھ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اس سلسلہ میں شریعت کے بعض احکام کا تذکرہ مناسب ہوگا:
۱۔ وقف کی حقیقت یہ ہے کہ جو چیز وقف کی جا رہی ہے، اس کو انسان کی ملکیت سے نکال دیا جاتا ہے: عبارۃ عن حبس المملوک عن التملیک من الغیر (المبسوط للسرخسی، کتاب الوقف:۱۲؍۲۷) گویا جب کوئی چیز وقف کر دی جاتی ہے تو نہ وہ وقف کرنے والے کی ملکیت میں باقی رہتی ہے اور نہ اس کی اولاد کی، وقف کرنے والا اپنی اولاد کو اپنی زندگی میں یا اپنے بعد متولی یعنی وقف کا منتظم تو بنا سکتا ہے؛ لیکن وہ نہ اس کا مالک ہو سکتا ہے اور نہ وقف کرنے والے کی شرط کے بغیر اس سے استفادہ کر سکتا ہے، خود وقف کرنے والا بھی نہ خود اس کا مالک ہے اور نہ کسی اور کو مالک بنا سکتا ہے، نہ کسی اور کو عاریت پر دے سکتا ہے اور نہ رہن رکھ سکتا ہے: فإذا تم ولزم لا یملک ولا یملک ولا یعار ولا یرھن (رد المحتار، کتاب الوقف: ۶؍۵۳۹)یہ بھی جائز نہیں ہے کہ وہ دوسرے کو کرایہ پر لگا کر خود کرایہ سے فائدہ اٹھائے: ولا یملک أی لا یقبل التملیک لغیرہ بالبیع ونحوہ (الدر المختار، کتاب الوقف:۴) کیوں کہ وقف کے معنیٰ ہی یہ ہیں کہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں دے دی گئی؛ البتہ اس جگہ کا نفع وقف کرنے والے کی نیت کے مطابق بندوں کو حاصل ہوگا: حبس العین علی حکم ملک اللہ تعالیٰ علی وجہ تعود منفعتہ إلی العباد (الفتاویٰ العالمگیریہ: ۲؍۳۵۰)
۲۔ جیسے یہ بات درست نہیں ہے کہ وقف کی ہوئی چیز واقف کی اجازت کے بغیر دوسرے کو کرایہ پر دی جائے، اسی طرح یہ بھی جائز نہیں ہے کہ اس جگہ کا جو کرایہ معروف ومتعارف ہے، اس سے بہت کم کرایہ پر وہ چیز دی جائے، معمول کے کرایہ کو فقہ کی اصطلاح میں اجرت المثل کہتے ہیں، یا تو اسے اسی معمول کے کرایہ پر دیا جائے، یا اس سے زیادہ اجرت پر، اتنے کم کرایہ پر دینا جو عام طور پر اس کا کرایہ نہیں ہوتا، جائز نہیں ہے: ولا تجوز إجارتہ لأجنبی إلابأجرۃ المثل لأن ما نقص یکون إضرارا بالفقراء (البحر الرائق، کتاب الوقف: ۵؍۲۵۵) اس لئے آج کل جو یہ صورت حال ہے کہ وقف کی جس عمارت کا کرایہ دس ہزار بیس ہزا ہوتا ہے، اس کا کرایہ دوسو، چارسو، لگایا جاتا ہے، نہ اس طرح کرایہ پر دینا جائز ہے اور نہ کرایہ دار کا اس کو لینا جائز ہے۔
۳۔ وقف کی عمارت کو مختصر مدت کے لئے ہی کرایہ پر لگایا جا سکتا ہے، فقہاء نے لکھا ہے کہ مکان کو زیادہ سے زیادہ ایک سال کے لئے اور کھلی ہوئی زمین کو تین سال کے لئے، اگر تعیین مدت کے بغیر کرایہ پر لگا دیا، تب بھی یہی ایک سال اور تین سال کی کرایہ داری درست ہوگی، مدت پوری ہونے کے بعد نئے معاہدہ کے ساتھ کرایہ داری کی تجدید ہوگی: وقیل تقید بسنتہ مطلقا وبھا أی بالسنۃ یفتی فی الدار وبثلاث سنین فی الأرض إلا إذا کانت المصلحۃ بخلاف ذلک (در المحتار، کتاب الوقف،فصل فی اجارۃ الواقف: ۴؍۴۰۰-۴۰۱)
موجودہ حالت پر غور کیجئے کہ کس طرح متولیوں اور قابضوں نے وقف کی زمین کو اپنی ملکیت بنا لیا ہے، وہ وقف کی جگہ کو اس طرح کرایہ پر لگاتے اور حاصل کرتے ہیں کہ گویا خود اُن کی خرید کی ہوئی ملکیت ہے، کرایہ دار اور اس کے بعد اس کے ورثہ پچاس سال سے اپنا قبضہ جمائے بیٹھے ہوئے ہیں، اور اللہ کا کوئی خوف نہیں کرتے ہیں۔
۴۔ جو چیز خود کرایہ پر حاصل کی گئی ہو، اگر کرایہ دار اس کو کسی دوسرے کو کرایہ پر لگائے تو یہ اسی وقت جائز ہے جب واقف یا متولی اس کی اجازت دے؛ البتہ جتنے کرایہ پر اس نے حاصل کیا، اگر وہ دوسرے شخص کو اس سے زیادہ کرایہ پر لگائے تو کرایہ کی زائد رقم اس کے لئے جائز نہیں ہے اور اس پر واجب ہے کہ وہ وہ رقم اپنے استعمال میں نہ لائے؛ بلکہ وقف کے مقصد میں خرچ کر دے، اس کو اپنے نفع کا ذریعہ بنانا جائز نہیں ہے: ولو آجر باکثر تصدق بالفضل إلا فی مسالتین( الدر المختار ، کتاب الاجارۃ، باب ما یجوز من الاجاجرۃ: ۶؍۲۷) اب فقہاء کی صراحت کی روشنی میں موجودہ حالات کا جائز ہ لیجئے، وقف کے کتنے ہی کرایہ دار ہیں، جو وقف کا معمولی کرایہ ادا کرتے ہیں، اور اس سے بہت زیادہ کرایہ پر لگا دیتے ہیں، اور اس سے نفع حاصل کرتے ہیں، یاد رکھنا چاہئے کہ یہ زائد رقم ان کے لئے جائز نہیں ہے۔
۵۔ اگر کسی شخص نے کوئی زمین غصب کر لی ہو، یا مکان زور زبردستی سے اپنے قبضہ میں لے لیا ہو تو وہ گنہگار تو ہے ہی، زیادہ تر فقہاء کے نزدیک جتنی مدت اس نے اس شئی کو اپنے قبضہ میں رکھا، اس مدت کا کرایہ بھی اس پر واجب ہوگا:…….یضمن فیجب أجر المثل، لأنھا مال متقوم مضنونۃ بالعقود کالأعیان (مجمع الانہر، کتاب الغصب: ۲؍۴۶۴) اس لئے اگر کوئی شخص وقف کے مکان میں رہ رہا ہو ، وقف کی ملگی میں تجارت کر رہا ہو تو اس پر اس پوری مدت کا کرایہ شرعا واجب ہے، اور ضروری ہے کہ اس کو اسی مصرف میں خرچ کیا جائے، جس کے لئے وقف قائم کیا گیا تھا۔
اگر اس پر عمل نہیں کیا گیا تو ایسے شخص کی آمدنی میں مال حرام شامل ہے اور نہ صرف وہ خود مال ِحرام کھانے کا مرتکب ہے؛ بلکہ اپنے بچوں کو بھی مال حرام کھلانے کا مرتکب ہو رہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس گوشت کی پرورش مال حرام سے ہوئی ہو، وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا، وہ دوزخ ہی میں جانے کے لائق ہے: لا یدخل الجنۃ لحم نبت من السحت وکل لحم نبت من السحت کانت النار أولیٰ بہ(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب البیوع ، باب الکسب: ۲؍۸۴۵) یوں تو مال ِحرام کے حاصل کرنے کی کوئی بھی صورت ہو وہ سخت گناہ ہے؛ لیکن خاص کر زمین اور مکان کا ناجائز طریقہ پر لے لینا ایسا شدید گناہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص تھوڑی سی بھی زمین ناحق طریقہ پر لے گا، قیامت کے دن اس کو زمین کی سات تہوں میں دھنسا دیا جائے گا:خسف بہ یوم القیامۃ إلی سبع أرضین (صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۲۴۵۴) اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو زمین کی سات تہوں کا طوق پہنائیں گے: طوّقہ اللہ إیاہ یوم القیامۃ من سبع أرضین(صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۱۶۱۰)
۶۔ ایک بدبختانہ بات یہ بھی ہے کہ بعض شخصیتیں وقف کی اراضی اور زمین پر قبضہ کرتی ہیں اور اس پر کمرشیل تعلیمی ادارہ قائم کر کے خود اس کا نفع حاصل کرتی ہیں اور اس کو ملت پر اپنا احسان قرار دیتی ہیں، اگر کوئی زمین کسی مقصد کے لئے وقف کی جائے اور اس مقصد میں اس کا استعمال ممکن نہ ہو اور وہ مسجد کے لئے نہ ہو تو تعلیمی اغراض کے لئے اس کے استعمال کی گنجائش ہو سکتی ہے؛ لیکن یہ اسی وقت درست ہوگا، جب کہ اس کی آمدنی غریبوں پر خرچ کی جائے، یا چیریٹی ادارہ کے طور پر کام کرے؛ چنانچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ جو چیز جس مقصد کے لئے وقف کی گئی ہو، اسی کے لئے اس کا استعمال ہونا چاہئے: شرط الواقف کنص الشارع (حاشیہ ابن عابدین: ۴؍۴۳۳)
۷۔ وقف کی حفاظت اور اس کا صحیح استعمال واقف یا وقف کے متولی یا وقف پر قابض شخص کی ہی ذمہ داری نہیں؛ بلکہ اس کو بچانا تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگ ظالم کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہیں تھامیں تو ان سبھی حضرات پر اللہ کا عذاب آئے گا: إن الناس إذا رأوا الظالم فلم یأخذوا علی یدیہ أو شک أن یعمھم اللہ بعقاب (سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم، حدیث نمبر: ۴۳۳۸)
اس لئے اگر قبرستان یا اس کے کچھ حصہ پر کوئی ناجائز قبضہ کرے، مسجد کی اُفتادہ زمین پر ناجائز طورپر قابض ہو، مدرسہ کے لئے کوئی جگہ دی گئی اور اس پر قابض ہونے کی کوشش کرے تو تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ اپنی طاقت بھر روکنے کی کوشش کریں، جو لوگ ایسا نہیں کریں گے ،وہ عند اللہ گناہ میں شریک سمجھے جائیں گے۔
اس لئے جیسے ہم سب مل کر حکومت کے ظلم اور اوقاف کے ناجائز قبضہ کے خلاف مہم چلا رہے ہیں، اسی طرح ہمیں اوقاف پر مسلمانوں کے ناجائز قبضہ کو بھی روکنے کی کوشش کرنے چاہئے، جیسے اپنی زمین اور اپنے مکان کی حفاظت کی جاتی ہے اور اس کے لئے آپسی تعلق کو خاطر میں نہیں لایا جاتا ،اسی طرح خود ظلم پر آمادہ مسلمانوں کے چنگل سے اوقاف کو آزاد کرانے کی بھی بھر پور کوشش کرنی چاہئے۔
Comments are closed.