پہلگام سے گلفام تک : نام بتاؤ گولی کھاؤ

 

ڈاکٹر سلیم خان

پہلگام سانحہ کے بعد ملک بھر میں بہت کچھ ہوا مثلاً وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کی قیادت کل جماعتی نشست ہوئی ۔ آگرہ میں شتریہ گئورکشادل نے گلفام کوقتل کرکے دعویٰ کیا کہ ’دھرم پوچھ کر مارا تھا دھرم پوچھ کر ماریں گے۔ 26 کا بدلہ 2600 کو مار کر لیں گے ‘۔گلفام کے بھائی اور پولیس نے مذہبی زاویہ کا انکار کیا ۔ اتراکھنڈ سے کشمیریوں کو نکل جانے کی دھمکی دی گئی۔ ہماچل پردیش، پنجاب اور دیگر مقامات پر کشمیری طلبا کے ساتھ بدسلوکی کی گئی ۔ یہاں تک کہ مغربی بنگال میں ایک خاتون ڈاکٹر نے مسلمان مریضہ کےعلاج سےا نکار کردیا ۔ میڈیا کے شور شرابے کا تو یہ ردعمل ہونا تھا سو ہوا مگر سوال یہ ہے کہ سعودی عرب سے دورہ مختصر کرکے آنے والے وزیر اعظم نریندر مودی کہاں ہیں ؟ وہ تو ان تمام ہنگاموں سے دور بہار میں ایک غیر اعلانیہ انتخابی جلسہ عام سے خطاب فرما کر پہلگام کا سیاسی فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ عوام حیران و پریشان ہیں کہ آخر وزیر اعظم کے لیے پہلگام پر کل جماعتی نشست زیادہ اہم تھی یا مدھوبنی کا پنچایتی راج پر خطاب عام ؟

پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے فوراً بعد حزب اختلاف نے کل جماعتی اجلاس کا مطالبہ کیا تاکہ دہشت گردی کے خلاف متحدہ قومی عزم کا اظہار کیا جائے نیز حفاظتی نظام میں کوتاہی کا جائزہ لیا جائے ۔ اس کے جواب میں اگلے دن جب دعوت آیا تو پتہ چلا اجلاس کی صدارت وزیر دفاع راجناتھ سنگھ فرمائیں گے اور اس میں وزیر داخلہ امیت شاہ شرکت کریں گے ۔ اس طرح گویا زیر لب یہ کہہ دیا گیا کہ وزیر اعظم کومذکورہ اجلاس میں شرکت کے لیے فرصت یا دلچسپی نہیں ہے ورنہ غیر ملکی دورے سے درمیان میں لوٹ کر آنے والے وزیر اعظم کی غیر حاضری ’چہ معنی دارد؟‘ کانگریس نے وزیر اعظم سے اس اہم ترین نشست کی صدارت کرنے کی گہار لگائی لیکن موصوف اپنی مرضی کے مالک ہیں اور مخصوص ترجیحات کے مطابق مدھوبنی پہنچ گئے ۔ ریاستِ بہار میں بہت جلد انتخاب ہونے والے ہیں اور اس بار نتیش کمار کے کمزور کندھے اس کا باراٹھانے سے قاصر ہیں اس لیے مودی جی کا ہاتھ بٹانا ضروری ہوگیا ہے۔ یہ اہم کام چونکہ وزیر اعظم کے سوا کوئی اور نہیں کرسکتا اس پہلگام جیسے واقعہ سے نمٹنے کی ذمہ داری راجناتھ سنگھ ،امیت شاہ اور دیگر حضرات کو سونپ دی گئی۔

 

ایوانِ پارلیمان میں منعقد ہونے والے کل جماعتی اجلاس کی صدارت وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کی۔ اس میں وزیر داخلہ امت شاہ کے علاوہ ، وزیر خارجہ ایس جے شنکر، جے پی نڈا، کرن رجیجو، اور دیگر مرکزی وزراء کے علاوہ کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگےو راہل گاندھی سمیت مختلف جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ وزیر دفاع نے حملے کی تفصیلات اور حکومت کی کارروائی سے آگاہ کیا۔ آئی بی اور وزارت داخلہ کے افسران نے سیکیورٹی میں کوتاہی کو تسلیم کیا۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اگر کچھ نہیں ہوا تو ہم یہاں کیوں بیٹھے ہوتے؟ راہل گاندھی نے پوچھا کہ جہاں یہ واقعہ رونما ہوا وہاں سیکورٹی اہلکار کیوں نہیں تھے؟ تمام سیاسی جماعتوں نے حملے کی سخت مذمت کرکے حکومت کو دہشت گردی کے خلاف ہر اقدام میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ راہل گاندھی اور کھرگے نے کشمیر میں امن بحال رکھنے کی ضرورت پر زور دیا اورپاکستان کے خلاف سفارتی سطح پر سخت اقدامات کا عندیہ دیا ۔

کل جماعتی نشست میں جس وقت بیشترسیاسی جماعتیں انٹیلی جنس کی ناکامی اور سکیورٹی فورسز کی عدم تعیناتی کا مسئلہ اٹھا رہے تھے ایک نہایت دلچسپ خبر سامنے آگئی اور اس نے بی جے پی کو شرمسار کردیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بدنامِ زمانہ رکن پارلیمان نشی کانت دوبے نے اس حملے سےتقریباً 10 دن قبل کشمیر کے گلمرگ میں ایک زبردست تقریب کا اہتمام کیا جو فی الحال بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ جھارکھنڈ جیسے غریب صوبے سے انتخاب لڑنے والےنشی کانت دوبے وہاں کے مسکین لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن اپنی شادی کی 25 ویں سالگرہ منا نے کے لیے انہوں نے کشمیر کا رخ کیا اور اس جشن میں پارٹی لائن سے اوپر اٹھ کر کئی سیاست دانوں کو مدعو کردیا ۔ وہاں چونکہ اہم ترین شخصیات موجود تھے اس لیے سخت حفاظتی انتظامات بھی تھا۔ اب سوال کیا جارہا ہے کہ سرکاری درباری لوگوں کی نجی تقریبات میں تو حفاظت کا خوب پاس و لحاظ کیاجاتا ہے مگر اس عوام کو نظر انداز کردیا جاتاہےجن ک ے ٹیکس پر یہ مفت خور لوگ پلتے ہیں ۔

پلوامہ سے پہلگام تک کا یہی پیغام دیا جارہا ہے کہ مودی راج میں عوام اور فوج توغیر محفوظ ہے مگر دوبے جیسے فتنہ پرور سیاستدانوں کی خوب عیش ہے۔اس جملۂ معترضہ کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی بابت جب معلوم ہوا کہ موصوف کل جماعتی نشست والے دن ( 24 اپریل )کو بہار کے مدھوبنی میں منعقدہ قومی پنچایتی راج دن کی تقریب سے خطاب فرما کر وہاں پہلگام دہشت گرد حملے پر سخت ترین الفاظ میں اپنا ردعمل ظاہر کررہے ہیں تو تعجب ہوا۔ انہوں نے بڑے طمطراق سے اعلان کیا کہ دہشت گردوں کو ان کی سوچ سے بھی بڑی سزا دی جائے گی۔ ایسے میں پہلا سوال تویہ ہے وزیر اعظم کو یہ کیسے پتہ چل گیا کہ دہشت گردوں کی سوچ کیا ہے؟ اور دوسرے ان کو سزا کیسے دی جائے اس پر تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھنے کے بجائے وہ بہار کیوں چلے گئے ؟؟ ظاہر ہے وزیر اعظم کے نزدیک انتخابی کامیابی اس حملے کے خلاف کارروائی زیادہ اہم ہے اسی لیے انہوں نے دہلی میں اجلاس کی صدارت پر مدھوبنی کے جلسۂ عام کو ترجیح دی۔

وزیر اعظم نےمدھوبنی میں فرمایا ’’اب وقت آ گیا ہے کہ ان کی باقی زمین بھی مٹی میں ملا دی جائے‘‘۔ زمین تو مٹی ملی ہوتی ہےاس لیے سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟ اور ان کا مخاطب دہشت گرد ہیں یا حزب ِ اختلاف ؟ ہندی کے بیچ انگریزی بولنا بہاریوں کا وطیرہ ہے ۔اسی کو اپناتے ہوئے انہوں نے انگلش میں کہا، ’’آئی سے فرام دی سوئل آف بہار ، وی وِل آئیڈینٹی فائی ایوری ٹیررسٹ اینڈ دیر سپورٹر، اینڈ دے وِل بی پنِشد۔ انڈیاز اسپرٹ کین ناٹ بی بروکن بائی ٹیررِزم۔ وی وِل ناٹ فارگیو دیم۔‘‘ یعنی، میں بہار کی سرزمین سے دنیا کو بتا رہا ہوں کہ ہم ہر دہشت گرد اور ان کے مددگار کی شناخت کر کے انہیں سزا دیں گے۔ دہشت گردی ہندوستان کے حوصلے کو توڑ نہیں سکتی۔ ہم انہیں معاف نہیں کریں گے‘‘ وزیر اعظم کو یوروپ اور امریکہ میں انگریزی بولنا چاہیےلیکن وہاں تو وہ مونی بابا بن جاتے ہیں اور ٹیلی پرومپٹر کے بغیر زبان نہیں کھولتے ۔بہار کے بھولے بھالے لوگوں کے سامنے لگے رعب جھاڑکرانہوں نےپہلگام کو بہار انتخاب سے جوڑنے والوں کو ا راحت کا یہ شعر یاد دلا دیا؎

سرحدوں پر بہت تناؤ ہےکیا کچھ پتہ تو کرو چُناؤ ہے کیا

وزیر اعظم کے پرجوش بیان سے متاثر ہوکر ہندو رکشا دل نے کشمیری مسلمانوں کو اتراکھنڈ چھوڑنے کی دھمکی دے دی ۔ اس کا فرمان تھا کہ اگر اگلی صبح 10 بجے کے بعد ریاست میں کوئی کشمیری مسلمان نظر آجائے تو اس کا مناسب ‘علاج’ کردیا جائے گا۔ اس بیچ جموں اور کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے کہا کہ شمالی ہندوستان کی ریاستوں مثلاً ہماچل پردیش، اتراکھنڈ اور پنجاب میں کشمیری طلباء کو نشانہ بنا یا جارہاہے۔ اس بابت کم از کم آٹھ واقعات کے ثبوت پیش کیے گئے۔اتر پردیش کے آگرہ میں ایک ریستوران میں کام کرنے والے گلفام اور اس کے بھائی سیف علی پر گولی چلانے کے بعد خود ساختہ گئؤ رکھشک منوج چودھری نےویڈیو پوسٹ کرکے پہلگام میں 26 سیاحوں کے قتل کےانتقام کا دعویٰ کیا۔یوگی کی پولیس نے ویڈیو پھیلانے والوں کو تو دھمکی دی مگر اس دہشت گرد کو گرفتار کرنے کی ہمت نہیں کرسکی۔ اس نفرت انگیزی کی انتہا تو اس وقت ہوئی کہ جب کولکتہ کےکستوری داس اسپتال کی ڈاکٹر سی کے سرکار نے ایک مسلم حاملہ خاتون کا علاج کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا، ’’کشمیر کے واقعے کے بعد، میں کسی مسلمان مریض کو نہیں دیکھوں گی۔‘‘

پہلگام کے سانحہ پر میڈیا میں جو سیاست جاری ہے اس کے یہ منفی اثرات ہیں۔ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ کشمیر میں ہندو سیاح مسلمانوں کی ٹیکسیوں میں بیٹھ کرجاتے ہیں۔ انہیں کے ہوٹلوں میں قیام کرکےان کے ہاتھ کا پکا کھانا کھاتے ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کی رہنمائی میں ٹٹو پر ٹریکنگ کرتےہیں اور اگر دہشت گردانہ حملہ ہوجائے توجان پر کھیل کر حفاظت کرنے والا بھی پہلا شخص مسلمان ہو تا ہے۔ زخمیوں کی مدد کے لیے دوڑ پڑنے والا کوئی اورنہیں مسلمان ہوتا ہے ۔ وہی ابتدائی طبی امدادمہیا کرکے بچاؤ کا کام کرتے ہیں اور اپنی . ایمبولینس میں اسپتال تک پہنچاتے ہیں۔ وہاں علاج کرنے والے مسلمان ڈاکٹروں کے ساتھ دیکھ بھال کرنے وا لی نرسیں بھی مسلم ہی ہوتی ہیں۔. اس کے باوجود کولکاتہ کی ڈاکٹر سی کے سرکار اپنی مریضہ سے کہتی ہیں ’’ہندوؤں کو آپ کے شوہر کو مار دینا چاہیے، پھر آپ سمجھ جائیں گے کہ وہ کیسا محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں تمام مسلمانوں پر پابندی لگا دینی چاہیے‘‘۔ کیا اس غیر انسانی سفاکی کا کوئی اخلاقی جواز ہے؟ احسان فراموشی کی بھی کیا کوئی حد ہوتی ہے؟؟

Comments are closed.