روح افزا تنازع: پتانجلی سے پیشانجلی تک

ڈاکٹر سلیم خان
وطن عزیز میں دلچسپ تنازعات جنم لیتے رہتے ہیں مثلاً ہمدرد کے مشہور شربت روح افزا کے مقابلے پتانجلی کا شربتِ گلاب کی رسوائی ۔دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس امت بنسل کی بینچ نے پتانجلی کے بانی بابا رام دیو کو ہمدرد کے مشروب روح افزا کو ‘شربت جہاد’ کہنے پر زور دار پھٹکار لگائی۔ بینچ نےکہا کہ بابا رام دیو کے بیان نے عدالت کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے اوریہ جرم ناقابل معافی ہے۔ یوگی ادیتیہ ناتھ جس طرح اپنے سیاسی مخالفین سے مقابلے میں ہارتے وقت تو نفرت انگیزی پر اتر آتے ہیں اسی طرح ’روح افزا‘ جیسا مشروب بنانے میں ناکام ہوجانے کے بعد میڈیا میں سنسنی پھیلانے کی خاطر بابا رام دیو نے ’شربت جہاد ‘ کا نعرہ لگادیا ۔ اپنے سیاسی و تجارتی آقاوں کی گودی میں براجمان میڈیا نے اسے خوب اچھالا مگر اس پھوہڑ اشتہار بازی کے خلاف ہمدرد نیشنل فاؤنڈیشن انڈیا نے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کردی ۔ سینئر ایڈوکیٹ مکل روہتگی نے ہمدرد کی طرف سے پیش ہوکرکہا کہ بابا رام دیو نے بلا وجہ ہمدرد کے خلاف مذہبی بیان دیا ہے اوران کا یہ تبصرہ مذہبی تقسیم پیدا کرنے والی نفرت انگیزی کے تحت آتا ہے۔ روہتگی کےمطابق چونکہ بابا رام دیو کے بیانات ہتک عزت کی زد میں آتے ہیں اس لیے ان کی ویڈیوز کو فوراً ہٹا دیا جانا چاہیے۔
بابا رام دیو کی جنم کنڈلی کھولتے ہوئے مکل روہتگی نےعدالت کو آگاہ کیا کہ یہ پہلی بار نہیں ہورہا ہے بلکہ ماضی میں بھی انہوں نے ہمالیہ ڈرگس پر اس لیے الزامات لگائے تھے کیونکہ اس کا مالک مسلمان تھا۔ روہتگی نے یاد دلایا کہ سپریم کورٹ نے اس سے قبل کورونا کے زمانے میں بابا رام دیو کو ایلوپیتھی سے متعلق گمراہ کن بیانات اور اشتہارات دینے پرنہایت سخت سرزنش کی تھی اور انہیں ناک رگڑ کر معافی مانگنے پر مجبور ہونا پڑا تھا ۔ رام دیو بابا جیسے لوگوں پر ’کتے کی دم‘ والی کہاوت پوری طرح صادق آتی ہے۔یہی وجہ ہے روہتگی نے بابا رام دیو کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ بابا رام دیو کے جس بیان کو دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس امیت بنسل نے ضمیر کیلئے ایک جھٹکا قرار دے کر ناقابل دفاع کہا وہ تھا ’ روح افزا کے ذریعہ ہونے والی ہمدرد کی کمائی سے مدرسے اور مساجد بنائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں اپنی حلال کمائی سے مسجد اور مدرسے بنانا کوئی جرم ہے؟ اور کیا اس بنیاد پر کسی تجارتی ادارے کا بائیکاٹ ہونا چاہیے کہ وہ اپنی آمدنی مذہبی تعمیرات پر خرچ کرتا ہے۔
شربت روح افزا ء118 سال سے سے ساری دنیا میں خاص طور پر ہندو پاک کے اندر انتہائی مقبول مشروب ہے۔ یوگا گرو رام دیو کی کمپنی ’پتانجلی‘ نے اس کا مقابلہ کرنے کی خاطر ’ شربتِ گلاب ‘ بنایا لیکن اس کی دال نہیں گلی اس لیے کہ’ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگوا تیلی‘ ؟ بابا رام دیو کو چاہیے تھا وہ شربت روح افزا کے اجزائے ترکیبی کی نقل کرتے ۔ اس میں موجود پھلوں اور سبزیوں کا رس اپنے شربت میں شامل کرتے ۔ اسی کے ساتھ جو جڑی بوٹی ہمدرد استعمال کرتی ہے اس کو بھی اپنے گلابی رنگ کے شکریلے شربت میں ڈالتے لیکن اس کے لیے نہ صرف دماغ چاہیے بلکہ روپیہ بھی درکار ہے۔ پتانجلی کو تو سستا اور گھٹیا شکرکا محلول بناکر منافع خوری کرنا ہے اس لیے وہ سب نہیں ہوسکا اور گاہکوں کا عتماد حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی۔ اسی لیے گھٹیا اشتہار بازی کا سہارا لیا گیا لیکن دولت کی ہوس میں وہ اس قدر گر جائیں گے یہ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔
پتانجلی نےکمال بے حیائی سے اپنی ویب سائٹ پر یہ بھی تحریر کردیا کہ ’شربت جہاد کے نام پر بیچے جا رہے ٹوائلٹ کلینر اور کولڈ ڈرنک کے زہر سے اپنے خاندان اور بچوں کو بچائیں۔ صرف پتانجلی کا شربت اور جوس ہی گھر میں لائیں۔‘ یہ جملہ ان سارے گاہکوں کی دلآزاری ہے جو برسوں سے شربت روح افزا سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں ۔ باباجی صرف یہیں نہیں رکے بلکہ اس مہینے کے شروع میں پتانجلی کے گلاب شربت کی تشہیر کے لئے ایک ویڈیو بھی جاری فرما دیا ۔ اس میں وہ بھینگا بابایہ کہتا نظر آ تا ہے کہ "ایک کمپنی جو شربت بیچ کر پیسہ کماتی ہے وہ مساجد اور مدارس کی تعمیر کرتی ہے لیکن اگر آپ پتانجلی کا شربت پیتے ہیں تو ہم گوروکول اور پتانجلی یونیورسٹی بنائیں گے۔” بابا رام دیو تو اپنے آقا مودی کی مانند اچھے دن کا خواب بیچ رہے ہیں جو کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا کیونکہ اگر انہیں یونیورسٹی بنانی ہوتی تو کب کی بن جاتی ۔ اس کے لیے شربت پر دھرم یدھ چھیڑنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ہمدرد تو اپنی یونیورسٹی کھول چکا ہے مگر اس کا پرچار کرکے اپنی مصنوعات فروخت نہیں کرتا ۔ کائناتِ ہستی میں برسنے والے نہیں گرجتے اور جو بادل یوگی یا رام دیو کی مانند گرجتے ہیں وہ کبھی نہیں برستے۔
ماضی میں پتانجلی کی وکالت کرنے والے سینئر وکیل مکل روہاتگی اس بار ہمدرد کی جانب سے اس کے خلاف میدان میں اترگئے۔ انہوں نے اپنے سابق مؤکل کے خلاف "فرقہ وارانہ تقسیم” و’’ نفرت انگیزی‘‘ کا الزام لگایا تو بابارام دیو کی دھوتی ڈھیلی ہوگئی اور وہ سارے یو گاسن بھول گئے۔ انہوں نے دہلی ہائی کورٹ میں ایک پراکسی وکیل کھڑا کرکے درخواست کی چونکہ مرکزی وکیل موجود نہیں ہے اس لیے مقدمہ ملتوی کردیا جائے۔ جسٹس بنسل اس چالبازی کو سمجھ گئے اور انہوں نے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ مرکزی وکیل اگر دوپہر تک پیش نہیں ہوےتو "بہت مضبوط حکم” جاری کیا جائے گا۔ اس پھٹکار کےبعد رام دیو نے اپنے مرکزی وکیل راجیو نایر کو عدالت میں پیش کردیا ۔ انہوں نے عدالت میں آتے ہی ہتھیار ڈال دئیے اور کہا کہ رام دیو ہمدرد کے خلاف اشتہارات واپس لے رہے ہیں۔
اس طرح بابا جی کی ساری ہیکڑی تو نکل گئی مگر عدالت نے پھر بھی اعتماد نہیں کیا اورپیش بندی کے طور مستقبل کی بدمعاشی کو روکنے کے لیے حکم دیا کہ رام دیو ایک حلف نامہ داخل کرکے ہمدرد کی مصنوعات سے متعلق کوئی بھی بیان، اشتہار یا سوشل میڈیا پوسٹ نہیں کرنے کی ضمانت دیں تاکہ اس ( ہمدرد) کو کوئی نقصان نہیں پہنچے۔ ایک ہفتے کے اندر حلف نامہ داخل کرنے کے بعد معاملے کی سماعت کے لیے یکم مئی کی تاریخ طے کی گئی اب دیکھنا یہ ہے امسال ’عالمی مزدوروں کے دن‘ بابا رام دیو کی کیا رسوائی ہوتی ہے؟ بابا رام دیو نے دراصل روح افزا جیسے مشروب کے خوش ذوق گاہکوں کا انتخاب کرکے بہت بڑی غلطی کردی ۔ اس وسیع و عریض ملک میں جہاں ایک سو چالیس کروڈ لوگ بستے ہیں نتیش رانے جیسے بدذوق لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو روح افزا جیسے مشروب کے بجائے گائے کا پیشاب پینا پسند کرتے ہیں ۔
پتانجلی تنازع کے دوران ایک منچلے صحافی کو نہ جانے کیا سوجھی جو اس نے حکمراں جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی، کے رہنما اور ریاست مہاراشٹر کی کابینہ کے رُکن نتیش رانے سے سوال پوچھا لیا کہ ’گرمی آ گئی ہے، تو اِس سے مقابلہ کرنے کے لیے آپ کیا پی رہے ہیں؟ روح افزا یا شربتِ گلاب؟اس معمولی سے سوال کے جواب میں مسلمانوں کو مسجد میں گھس کر مارنے کا کھوکھلی دھمکی دینے والے نتیش رانے کےمن کی بات پھدک کر باہر آگئی۔ اس نے بے ساختہ کہہ دیا کہ وہ ’گوموتر‘ (گائے کا پیشاب)خوب پیتے ہیں کیونکہ وہ صحت کے لیے بہت مفید ہے۔انھوں نے اپنے آپ پر ہمدرد کو قیاس کرتے ہوئے مزید کہا کہ انھیں نیک نیتی کے ساتھ روح افزا کون دے گا؟سوشل میڈیا پر جب گوموتر کا معاملہ گرم ہوا توجہاں کچھ صارفین اسے ’مذہب کے نام پر حماقت‘ قرار دیا تو وہیں بہت سارے لوگ اس کے فوائد بیان کر نے میں جٹ گئے ۔
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ جنوری 2025 میں انڈیا کے مؤقر تعلیمی ادارے ’آئی آئی ٹی‘ مدراس کے ڈائریکٹر اور سائنسدان وی کاماکوٹی نے گائے کے پیشاب کومفید بتا کرکے خود کومذمت کا ہدف بنا چکے ہیں۔ڈاکٹرز ایسوسی ایشن فار سوشل ایکویلٹی (ڈی اے ایس ای) کے جنرل سیکریٹری جی آر رویندر ناتھ نے وی کاماکوٹی پر سخت تنقید کرتے ہوئے گائے کے پیشاب اور گوبر کے مبینہ طبی فوائد کے متعلق ان کے بیان کو صحت عامہ کی خاطر خطرہ بتایا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’ایسے وقت میں جب ڈینگی، سوائن فلو اور کووڈ 19 جیسی بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں، اگر لوگ ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کے بجائےرویندرناتھ کا مشورہ مان لیں اور گائے کا پیشاب پینے لگیں تو کیا ہو گا‘گائے کو مقدس ماں کا درجہ دینے والے ہندوؤں پر اس طرح کی معروضی دلائل گراں گزرتےہیں ۔ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور وہ اپنی گئو ماتا کے تقدس کی حفاظت کے لیے کسی بچے کو یتیم کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جنھیں اپنی اصلی ماں سے زیادہ گئو ماتا عزیز ہے کیونکہ اس کی آڑ میں سیاسی و تجارتی فائدہ اٹھانا سہل ہوگیا ہےاسی لیے ہر انتخاب سے قبل مودی اور یوگی کسی نہ کسی گائے کو گھاس کھلاتے نظر آتے ہیں اور بابا رام دیو بھینس کے دودھ سے بنا گھی گائے کا کہہ کر فروخت کرتے ہیں۔
Comments are closed.