دہشت گردی کا تعلق نہ اسلام سے ہے نہ مسلمان سے!!

تحریر: جاوید اختر بھارتی
پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کی چہار جانب مذمت ہورہی ہے اور ہونی بھی چاہئے کیونکہ ناحق خون بہانے کا اور کسی کی جان لینے کا حق کسی کو نہیں اس سلسلےمیں ملک کے ہر خاص و عام اور معزز شخصیات نے پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کی پرزور لفظوں میں مذمت کی ہے اور مذمت کرنے والوں میں علماء کرام ، سیاسی و سماجی کارکنان، نمایندگان اور لیڈران شامل ہیں،، مذہب اسلام کے اندر دہشت گردی کی گنجائش ہی نہیں ہے بلکہ اسلام تو وہ مذہب ہے کہ اعلان کرتاہے کہ جس نے ایک بھی خون ناحق بہایا اس نے پوری انسانیت کا خون بہایا اور جس نے خون ناحق بہنے اور بہانے سے بچایا تو اس نے پوری انسانیت کو قتل ہونے سے بچایا ،، مذہب اسلام تو بے وجہ ہرے بھرے تازہ دم درختوں کو بھی کاٹنے کی اجازت نہیں دیتا، جنگ کے دوران بھی بچوں اور بوڑھوں و عورتوں پر تلوار چلانے کی اجازت نہیں دیتا ، یہاں تک کہ زمین پر اکڑ کر چلنے کی اور فساد برپا کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتا اور زمین پر لاٹھی ڈنڈا پیٹنے کی بھی اجازت نہیں دیتا ہے جموں وکشمیر کے پہلگام میں جو کچھ ہوا وہ قابل مذمت ہے اور ساتھ ہی لاشوں پر سیاست کرنا اور اس غم کے ماحول میں ہندو مسلم کا کھیل کھیلنا بھی قابل مذمت ہے یاد رکھیں کہ ہندوستان کا مسلمان کل بھی وفادار تھا اور آج بھی وفادار ہے اور پوری وفاداری کے ساتھ ہندوستان کی تعمیر و ترقی اور اس کے تحفظ کے لئے کمر بستہ ہے ،، ایک دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف دہشت گرد ہوتاہے پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کی ہم مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جلد از جلد اس معاملے کو بے نقاب کیا جائے اور جس نے یہ حرکت کی ہے اسے کیفرکردار تک پہنچایا جائے،،
یہ وقت نہیں ہے ہندو مسلم کے نام پر نفرت پھیلانے کا اور سیاست کی روٹیاں سینکنے کا بلکہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے ٹھوس فدم اٹھائے جائیں،، پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملہ ہندوستان کی تہذیب وتمدن کو برباد کرنے کی ایک سازش ہے جو یقیناً قابل مذمت ہے اور جہاں سیاحوں کی اتنی بڑی تعداد تھی وہاں سیکورٹی کا انتظام نہ ہونا یہ قابل افسوس ہے ایسے دکھ کے ماحول میں بھی مسلمانوں کے تئیں نفرتی بیان بازی کرنا بھی قابل مذمت ہے کیونکہ پہلگام میں سیاحوں کی جان بچانے کے لئے مسلمانوں نے ہر طرح کی قربانی دی ہے یہاں تک کہ عادل حسین نے ایک انسان کی جان بچانے کی جدوجہد میں خود اپنی جان گنوادی حکومت کو ملک کے تحفظ کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا چاہئے اور ہندو مسلم کے نام پر زہر آلود بیان بازی کرنے والوں پر قدغن لگایا جانا چاہئے،، تاکہ کسی بھی صورت میں ہندوستان کا تانا بانا بکھرنے نہ پائے،، ایک پروفیسر نے دہشت گردی کے موضوع پر بڑی اہم تحریر لکھی اور بڑے اچھے انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کو آگ سے تعبیر کیا ہے،، پروفیسر محمد آدم نے لکھا ہے کہ
دہشتگردی آگ کی مانند ہے، آگ نہ مذہب دیکھتی ہے، نہ قوم، نہ نسل؛ یہ صرف جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔
کشمیر میں جو کچھ ظالموں نے کیا، اور اس کے پیچھے جو بڑی اور خطرناک سازشیں کارفرما ہیں، ان کا سدباب جن کی ذمہ داری ہے، اگر وہی اس پر بات کرنے اور مؤثر اقدامات کرنے کے بجائے مسلمانوں پر الزامات عائد کرنے لگیں، یا ان کے خلاف نامناسب بیانات اور حرکات کریں، اور مرکزی میڈیا جس طرح کی شہ سرخیاں لگا رہا ہے، وہ دہشتگردوں سے لڑنے کے بجائے مسلمانوں کو ہی دہشتگرد ثابت کرنے پر تُلا ہوا نظر آتا ہے—تو یہ ایک افسوسناک رجحان ہے، جس کی مخالفت نہ صرف مسلمان بلکہ ملک کا باشعور طبقہ بھی پوری شدت سے کر رہا ہے۔
مزید تشویش ناک بات یہ ہے کہ بعض ہندو انتہاپسند عناصر ان ظالموں کا بدلہ بھارتی مسلمانوں سے لینے کے لیے ماحول کو پرتشدد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کہ ملک کی سالمیت اور امن و امان کے لیے نہایت خطرناک ہے۔
لہٰذا حکومت اور حفاظتی اداروں پر لازم ہے کہ وہ سنجیدگی، انصاف اور دانشمندی کا مظاہرہ کریں، اور مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ سوچ سمجھ کر، تحمل، بردباری اور حکمت کے ساتھ حالات کا سامنا کریں۔
بے جا اشتعال انگیزی، غیر ضروری گفتگو، اور سوشل میڈیا پر جذباتی اظہار سے مکمل اجتناب برتا جائے، تاکہ ملک میں امن، اتحاد اور بھائی چارے کا ماحول قائم رکھا جا سکے۔
یہ سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ آپ کی کوئی بھی بے جا حرکت یا غیر محتاط عمل اُمتِ مسلمہ کو مزید آزمائش میں مبتلا نہ کر دے۔
دہشتگردی آگ کی مانند ہے—آگ نہ مذہب دیکھتی ہے، نہ علاقہ، اور نہ ہی نسل۔ نہ ہی آگ کے بھڑکنے کے لیے پانی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ یہ صرف جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔
اکثر اس کے پیچھے مختلف ایجنسیاں کارفرما ہوتی ہیں، مگر بدنام ہمیشہ مذہب اور دہشتگردی کے شکار افراد و جماعتیں ہی کی جاتی ہیں۔
کشمیر کے لوگوں نے مہمانوں کی عزت کی اور مہمانوں کی جان بچانے کی کوشش کی آج ان کی آنکھوں میں بھی آنسو ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ایک طرف انسانیت کے دشمنوں نے قتل وغارت کی تو دوسری طرف گودی میڈیا اور چند شرپسندوں نے ملک کے ماحول میں زہر گھولنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے ایسے روئیے اور نظرئیے اور کاموں سے تو دہشت گردی کو ہی فروغ ملے گا،، جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کے ماحول میں ملک کے ایک سو چالیس کروڑ لوگ کاندھے سے کاندھا ملا کر چلیں ، قدم سے قدم ملا کر چلیں اور ملک و ملت کے تحفظ کے لئے شیشہ پلائی دیوار بن جائیں تاکہ دوبارہ کسی ظالم کے اندر ایسی گھناؤنی حرکت کرنے کی جرأت نہ ہوسکے۔
Comments are closed.