17 رمضان المبارک یوم وفات مفسرہ قرآن و سنت ام المئومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا

تحریر:مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی
نام ونسب
عائشہ نام،صدیقہ اور حمیرا لقب ام عبداللہ کنیت ،افضل الناس بعد الانبیاء خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے والدگرامی ہیں،والدہ کانام زینب تھا ان کی کنیت ام رومان تھی اور قبیلہ غنم بن مالک سے تھیں
کنیت :
عرب میں کنیت شرافت کا نشان ہے ۔ چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاکے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔ اس لیے کوئی کنیت بھی نہ تھی۔ ایک دفعہ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے حسرت کے ساتھ عرض کیا کہ اور عورتوں نے تو اپنی سابق اولادوں کے نام پر کنیت رکھ لی ہے ، میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟ فرمایا : اپنے بھانجے عبداللہ کے نام پر رکھ لو۔
چنانچہ اسی دن سے ام عبداللہ کنیت قرار پائی۔
ولادت:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بعثت کے چاربرس بعدشوال کے مہینے میں پیداہوئیں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا کاشانہ وہ برج سعادت تھاجہاں خورشیداسلام کی شعاعیں سب سے پہلے پر توفگن ہوئیں اس بنا پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے والدین کو پہچانامسلمان پایا(بخاری۔ج 1ص252)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عقدنکاح میں
امہات المئومنین میں سے ہر ایک کو منفردشرف حاصل رہاہے چنانچہ تمام ازواج مطہرات میں یہ شرف صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوحاصل ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کنواری بیوی تھیں۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خولہ بنت حکیم کے ذریعے سے اپنی لاڈلی بیٹی کاعقد نکاح حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے طے کرایا 500سودرہم مہرقرارپایا۔یہ نبوت کے 10 ویں سال کا واقعہ ہے۔اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمرچھ سال تھی۔یہ نکا ح ا سلام کی سادگی کی حقیقی تصویرتھا۔
فضائل وکمالات:
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رسول اقدس محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : یا رسول اللہ ! آپ کو دنیا میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ فرمایا : عائشہ عرض کی مردوں میں کون ہے؟ فرمایا : اس کا باپ ۔ ایک دفعہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی حضرت حفصہ ام المئومنین کو سمجھاتے ہوئے کہا :بیٹی عائشہ کی ریس نہ کیا کرو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اس کی قدر ومنزلت بہت زیادہ ہے ۔
رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مردوں میں بہت کامل گزرے لیکن عورتوں میں سے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون کے سوا کوئی کامل نہ ہوئی اور عائشہ کو عورتوں پر اسی طرح فضیلت ہے جس طرح ثرید کو تمام کھانوں پر۔
امام ذہبی لکھتے ہیں کہ سیدہ عائشہ پوری امت کی عورتوں سے زیادہ عالمہ ، فاضلہ ، فقیہہ تھیں ۔
عروہ بن زبیر کا قول ہے : میں نے حرام وحلال ، علم وشاعری اور طب میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھاسے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھافرماتی ہیں کہ میں فخر نہیں کرتی بلکہ بطور واقعہ کے کہتی ہوں کہ اللہ نے دنیا میں ۹ باتیں ایسی صرف مجھ کو عطا کی ہیں جو میرے سوا کسی کو نہیں ملیں
1۔ خواب میں فرشتے نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میری صورت پیش کی۔
2۔ جب میں سات برس کی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا ۔
3۔ جب میرا سن ۹ برس کا ہوا تو رخصتی ہوئی ۔
4۔ میرے سوا کوئی کنواری بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نہ تھی ۔
5۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب میرے بستر پر ہوتے تب بھی وحی آتی تھی ۔
6۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی تھی ۔
7۔ میری شان میں قرآن کی آیتیں اتریں ۔
8۔ میں نے جبریل علیہ السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔
9۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گود میں سر رکھے ہوئے وفات پائی۔
جہاد میں شرکت
غزوات میں غزوہ احداور غزوہ مصطلق میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شرکت کاپتہ چلتاہے صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہاکودیکھاکہ مشک بھر بھر کرلاتی تھیں اورزخمیوں کو پانی پلاتی تھیں (بخاری ج2ص581)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہااور احادیث نبویہ :
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کو علمی صداقت اور احادیث روایت کرنے کے حوالے سے دیانت وامانت میں امتیاز حاصل تھا ۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھاکا حافظہ بہت قوی تھا ۔ جس کی وجہ سے وہ حدیث نبوی کے حوالے سے صحابہ کرام کے لیے بڑا اہم مرجع بن چکی تھیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاحدیث حفظ کرنے اور فتوی دینے کے اعتبار سے صحابہ کرام سے بڑھ کر تھیں۔سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھانے دو ہزار دو سو دس (2210) احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ۔
دور نبوی کی کوئی خاتون ایسی نہیں جس نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھاسے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ہو ۔
صدیقہ کائنات سے ایک سو چوہتر (174) احادیث ایسی مروی ہیں جو بخاری ومسلم میں ہیں ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے عِلم وزہد کی چند مثالیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی وفات کے بعد ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاکی خدمت میں ان کے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ نے ایک لاکھ اسی ہزار درہم بطور ہدیہ بھیجے ، وہ اس دن روزے سے تھیں چنانچہ انہوں نے اسے لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا ، شام ہونے تک ایک درہم بھی باقی نہیں رہ گیا تھا ، افطار کے وقت باندی سے فرمایا: میرے افطار کا انتظام کرو، چنانچہ ایک روٹی اور تھوڑا تیل لے کر حاضرہوئی اور کہنے لگی آپ نے آج جو کچھ تقسیم کیا ہے اس میں سے ایک درہم کا گوشت خرید لیتیں تو اس سے افطار کر لیتیں ،حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھانے فرمایا ناراض نہ ہو ، اگرتو مجھے یاد دلاتی تو شاید میں ایسا کر لیتی
کرم ِصدیقہ کائنات ؓ
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھاکے بھانجے ہیں ، فرماتے ہیں ، میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھاکو سترہزاردرہم تقسیم کرتے دیکھا ہے جو کہ وہ خود پیوند لگا کپڑا استعمال کرتی تھیں اور نیا نہیں پہنتی تھیں
خشیت صدیقہ کائناتؓ
اسی طرح قاسم بن محمد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھاکے بھتیجے ہیں ، فرماتے ہیں "کہ میں روزانہ حضرت عائشہرضی اللہ عنھاکی خدمت میں سلام کرنے جاتا تھا ، ایک دن جب پہنچا تو دیکھا کہ وہ نماز میں اس آیت کو باربار پڑھ کر رو رہی ہیں۔فمن اللہ علینا ووقانا عذاب السمومِ (سور الطور: 27)سو اللہ نے ہم پر بڑا حسان کیا اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچالیا ،
چنانچہ میں وہاں کھڑے کھڑے تھک گیا اور اپنے کام سے بازار چلا گیا جب دوبارہ واپس آیا تو دیکھا کہ اسی طرح نماز پڑھ رہی ہیں اور اس میں زار و قطار رو رہی ہیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ علم وزہد اور خوف و خشیت اور جودوکرم ہمارے لیے اعلی نمونے ہیں توآئیے ہم بھی اپنی امی جان کے نقش ِ قدم کے اوپر چلتے ہوئے اپنی حقیقی خالق و مالک کو راضی کریں ۔
وفات وتدفین
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کااخیر زمانہ خلافت تھاکہ رمضان 55 یا 56 یا57 یا58ھ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے اس دنیا سے رحلت فرمائی اس وقت ان کی عمر64سال یا65یا67یا68سال میں تھی مہینے میں بھی اختلاف ہے کہ رمضان ہے یا شوال لیکن محقق قول 58ھ ماہ رمضان المبارک ہے۔ان کی نماز جنازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھائی جو کہ اس وقت مروان بن حکم کی طرف سے مدینے کے گورنرتھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وصیت فرمائی تھی کہ میراجناز ہ ر ات کے وقت میں اٹھایا جائے اورمجھے جنت البقیع میں دفن کیا جائے ۔چنانچہ ایساہی کیاگیا ۔اور ان کو قبر میں اتارنے والے حضرت قاسم بن محمد،عبداللہ بن عبدالرحمن،عبداللہ بن ابی عتیق،عروہ بن بن زبیراورحضرت عبداللہ بن زبیر رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین تھے
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.