موتی مسجد بھوپال (جامع ازہر)

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043
و عاشوا سادة فى كل أرض
وعشنا فى مواطننا عبيدا
بھوپال کی تاریخی حیثیت اور اسلام کے تئیں اس کی خدمت کی داستان سے صفحات پر ہیں، وہاں کا چپہ چپہ اسلامی دور کی عظمت اور مسلمانوں کی شوکت پر دلیل ہے، ان ہی میں سے ایک بڑی جھیل کے کنارے، اقبال میدان کے سامنے اپنی شان و بان کے ساتھ موجود ” موتی مسجد” بھی ہے، سرخ مائل رنگ، پتھر کا نقش و نگار، اندرون حصہ میں سنگ مر مر کی پر کشش عمارت، خارجی حصہ کی سبزہ زاری اور سر دروازہ کی جلالت و عظمت جس کا خاصہ ہے، دور ہی سے اپنے دیکھنے والے کی نظر کو موہ لیتی ہے، چلتے انسان ٹھہر جاتے ہیں، جدید ٹیکنالوجی کے ماہرین اسے دیکھ کر سر دھنتے رہتے ہیں، یہ مسجد نہ صرف اپنے ماضی کا پتہ دیتی ہے؛ بلکہ مسلمانوں کو اس کے مستقبل اور حال کا سراغ بھی دیتی ہے، وہ قوموں کے عروج و زوال کی کہانی اپنے درد و کراہ کے ساتھ تو کبھی جھوم جھوم کر بتلاتی ہے، وہ کہتی ہے کہ کس طرح علوم اسلامیہ کے خدام نے اسے ہندوستان کی سرزمین پر جامع ازہر کا ہمسایہ بنا دیا تھا، علم حدیث میں یمن و شیراز کے ہم پلہ کردیا تھا، اور شکایت کرتی ہے؛ کہ کس طرح اس کے نالائق اخلاف نے اس کی توہین کی ہے۔
سیدی ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے اپنے استاد خلیل عرب کے تذکرے میں ان کے آباء و اجداد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے؛ کہ جب ان کے جد امجد شیخ حسین بن محسن انصاری حدیدہ یمن سے سنہ ۱۸۸۹ء میں بھوپال تشریف لائے، جو علم حدیث کے امام اور جو قدیم محدثین قوت حافظہ اور وسعت نظر کے واقعات قدیم تذکروں میں منقول اور اس دور کے لوگوں کےلیے سرمایہ استعجاب ہیں ان سب کی زندگی کی یادگار اور بولتی چالتی تصویر تھے، جنہیں فتح الباری کی تیرہ جلدیں تقریبا یاد تھیں، اور کم سے کم سندوں کے (جو عالی اور باعث فضیلت سمجھی جاتی ہیں) مالک تھے، جن سے بڑے بڑے مشایخ و صاحب تصنیف و ارشاد نے استفادہ کیا اور بہت وسیع حلقہ شاگردی بنا، کہا جاتا ہے کہ شیخ حسین کے قیام نے بھوپال کو دارالحدیث اور شیراز و یمن کا ہمسر بنا دیا، تقریبا ثلث صدی سے زائد "موتی مسجد” جو اس چھوٹے سے شہر میں جامع ازہر سے آنکھیں ملاتی تھی، قال اللہ و قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گونجتی رہی اور نہ صرف بھوپال بلکہ ہندوستان کی فضا اس نفحہ عنبریں سے منور و معطر ہوتی رہی۔ (دیکھیے: پرانے چراغ: ۱۸۴/۱)
سطور بالا پڑھنے کے بعد طبیعت پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی، اور ذہن میں یہ نکتہ گردش کرنے لگا کہ موتی مسجد کے اردگرد ایک عمر گزری؛ لیکن کبھی اس کی علمی فوقیت کا اندازہ نہ ہوا، اور شاید طفلانہ ذہن اور ایک حدیث السن کیلئے یہ ممکن بھی نہ تھا، یہ کیسے خیال آتا کہ اس (موتی مسجد) عمارت کی خوبصورتی اپنے اندر کس عظمت کو دفن کئے ہوئے ہے، اس کے اندر اپنے ماضی کا درد و کراہ کس بےچینی کے ساتھ کروٹ لے رہا ہے، اس کے زار و قطار آنسو اور سسکیاں کس حد کو پہونچی ہوئی ہیں، سچی بات یہ ہے کہ بظاہر اس کا شاد چہرہ ہر کسی کو دھوکہ میں ڈال دیتا ہے، اسے خوش و خرم سمجھنے کی چوک کر بیٹھتا ہے، اور یہ جان بیٹھتا ہے؛ کہ کبھی اس کے اندر علم و عرفان بام عروج پر تھا، آج صفائی و ستھرائی ہی اس کی زینت یے؛ لیکن وہ کس زبان سے کہے؛ کہ اس کے ارمان کیسے کچلے گئے ہیں، قال اللہ و قال الرسول کی گونج سے محرومی نے کیا درد دیا ہے، آزادی ہند کی افرا تفری اور خود علما کی کم نگاہی و بے اعتنائی نے اسے کیا غم پہونچایا ہے، اس کا سینہ پارہ پارہ ہوجاتا ہے؛ جب اس کے وارثین اس کے ورثے کو اونے پونے دام میں فروخت کرتے ہیں، اس کے منبر و محراب کی توہین کرتے ہیں، اسلام مخالف لہروں کا وہ سد سکندر اب زمانے کے تھپیڑوں سے عاجز ہے، وہ تنہائیوں کا شکار ہے، اس کی ویرانی ( اگرچہ کہ اس میں نماز کی اجازت ہے) کسی بھی غیور مسلم اور صاحب دل و صاحب حال شخص کےلیے جاں کناں ہے۔
Comments are closed.